Mchoudhary

Add To collaction

کبھی روگ نہ لگانا پیار کا (session1)بقلم ملیحہ چودھری

قسط22

*************
آٹھ مہینے بعد»»»
نیا موڑ نیا سفر۔۔۔زندگی اچانک کتنی بدل جاتی ہے انسان جو کبھی نہیں سوچتا وہ ہو جاتا ہے۔۔"زندگی میں انسان کی بے لگام خواہشات ہوتی ہے۔۔جتنا سوچو اُن خواہشوں کو وہ اتنا اُڑنے کا خواب دیکھتی ہے۔۔۔لیکن ضروری تو نہیں ہر خواہش پروان چڑھے۔۔کچھ خواہشوں کا ادھورا ہی رہ جانا اچھا ہوتا ہے۔۔۔ورنہ انسان اُن خواہشوں کو پورا کرتا کرتا خود کو ختم کر دیتا ہے۔۔لیکن اُن خواہشوں کو کبھی منزل نہیں ملتی۔۔۔ایک بار پھر اُسکی زندگی ایسی ہی ہو گئی تھی کہ وہ کبھی خوابوں میں بھی نہیں سوچ سکتی تھی۔۔۔شائد میری زندگی میں خوشیاں کچھ وقفے کے لیے ہی آتی ہے۔۔۔۔شائد مجھے خوشیاں راس ہی نہیں آتی۔۔۔یا شائد اللّٰہ مجھے اور آزمانا چاہتا ہو۔۔۔اگر اللہ کی جانب سے میرے لیے یہ سزا ہے تو اللہ تُو جانتا ہے۔۔۔مجھے تیری ہر سزا قبول ہے"اور اگر آزمائش ہے تو بخدا میرا اللہ جانتا ہے لیکن میں انشاءاللہ ضرور سرخور ہو جاؤنگی مجھے اللہ پر کامل یقین ہے۔۔"کیونکہ ہر ایک آزمائش کے بعد ایک خوشی ضرور آتی ہے۔۔اور یہ خوشی میری زندگی میں ضرور آئے گی انشاءاللہ۔۔وہ رائٹنگ ٹیبل پر بیٹھی اپنی ڈائری کھولے اس پر لکھ رہی تھی۔۔"رات کا اندھیرا ہر طرف پھیلا ہوا تھا۔۔آسمان میں بادلوں کی گرج بہت تیز تھی۔۔۔اتنی کہ اُنکی گرج سے لگتا تھا کہ یہ بادل بھی خوشی چھین جانے پر سوگ بنا رہے ہیں۔۔"اس بار بادلوں کی گرج اتنی تیز تھی کہ اس نے بنا خوف کے ڈائری سے نظر ہٹا کر کھڑکی سے نظر آتے آسمان کی طرف دیکھا۔۔" اب باہر تیز بارش شروع ہی گئی تھی۔۔۔ایسا لگتا جیسے یہ بادل بھی آج کھل کر رونا چاہتے ہو۔"کہتے ہیں انسان مر جائے زمین میں دفن کر دیا جائے تو اللہ صبر دے دیتا ہے۔۔۔کیونکہ اس پاک رب نے وعدہ کیا ہے۔۔"لیکن جب انسان آنکھوں کے سامنے ہو زندہ بھی اور ساتھ میں وہ شخص ہی اُسکا محبوب بھی ہو"اور محبوب کے ناطے میں ہو کر اس شخص کی بے رخی بھی ہو تو انسان ٹوٹ کر کرچی کرچی ہو جاتا ہے۔۔۔اور محبّت میں تو یہ لازمی ہے"اور محبّت بھی تو وہ جب اپنا ایک سفر شروع کر چکی ہو۔۔جسکی کوئی منزل نہیں ہوتی۔۔ جسکی منزل سیدھا موت ہو وہ سفر جس میں وجود کی نہیں روح کی چاہ ہوتی"وہ سفر جس میں ہر جہاں میں صرف محبوب کا ساتھ ہو۔۔۔"میں نہیں جانتی میری کیا غلطی ہے"میں یہ بھی نہیں جانتی کبھی اپنی غلطی پوچھ بھی پاؤں کہ نہیں۔۔!! لیکن میں صرف اتنا جانتی ہوں میرے وجود  سے میری محبّت کو تکمیل میری آنے والی اولاد دیگی۔۔مجھے نہیں معلوم کہ یہ ہے رخی کیوں برتے ہوئے ہے۔۔۔لیکن ایک دن وہ آئے گا۔۔جب آپ مجھے یاد کیا کرے گے"جب آپ مجھے اپنی سوچو میں پائینگے لیکن اس وقت بہت دیر ہو چکی ہو گی۔۔۔میں کہیں نہیں ہونگی کہیں بھی نہیں۔۔!! اب اُسکی آنکھوں سے آنسوں ٹوٹ کر ڈائری کے صفحہ پر گر رہے تھے۔۔"میں کب تک زندہ ہوں مجھے نہیں پتہ لیکن جب تک بھی ہوں میری صرف ایک دعا ہے۔۔اللّٰہ آپ پر ہمیشہ خوشیوں کے دروازہ کھولے رکھے کبھی آپکو اپنے راستے سے پیچھے نہ ہٹائے۔۔ہمیشہ آپکو نماز ،قرآن اور وہ ہر عبادات کرنے کی توفیق دیں جس سے میرا رب خوش ہو۔۔۔آمین۔!!!! میں ہمیشہ سے آپ سے محبّت کرتی تھی ہوں اور رہونگی۔۔انشاءاللہ۔۔!!!! اس نے قلم ڈائری میں رکھا اور پھر اپنے بھرے بھرے وجود کو دیکھا۔۔"وقت دیکھا۔۔ساڑھے گیارہ ہو رہے تھے۔۔۔وہ سیدھا نیچے آ گئی۔۔کچن میں آ کر اس نے ایک گلاس میں پانی لیا اور وہی سٹول پر بیٹھ کر پہلے ﷽ پڑھا اور گلاس کو لبوں سے لگا لیا۔۔۔دھیرے دھیرے وہ پانی پینے لگی تھی۔۔"تبھی دروازہ نوک ہوا۔۔۔اس نے گلاس سیلف پر رکھا اور گیٹ کی طرف بڑھ گئی۔۔"دھیرے سے کنڈی کھول کر اس نے گیٹ کھولا تھا۔۔۔"سامنے رحیم بابا کھڑے تھے۔۔"کچھ شاپر بھی ہاتھ میں تھے۔۔"بابا آپ...!!! اس نے رحیم بابا سے پوچھا ..!"کئی دنوں بعد آئے تھے تو پوچھنا اس نے ضروری سمجھا.."جی بچّے..!! یہ دیکھو آپکی امّاں نے کچھ سامان دیا ہے"اور بول رہی ہے کہ آپکی ضروریات کا سامان ہے یہ.."لیکن بابا...!!! بچہ لیکن ویکین کچھ نہیں آپ رکھو ان کو اپنے پاس..! رحیم بابا..! منہال کے بہت پرانے ملازم رہ چکے تھے۔۔"وہ منہال کے بنگلے میں ایک جانب بنے ملازم کوارٹر میں رہتے تھے اپنی فیملی کے ساتھ اُن کے دو بیٹیاں تھی۔۔"ایک بیٹی کی وہ شادی کر چُکے تھے"جبکہ ایک بیٹی اُنکی بچپن میں کہیں گم ہو گئی تھی۔۔" آئے نہ بابا اپنی بیٹی کے چھوٹے سے گھر میں آئے نہ۔۔"مائشا نے اُنکے ہاتھ سے شاپر لیتے ہوئے کہا۔۔اور اُنکو اندر آنے کی دعوت دی.."رحیم بابا اُسکے پیچھے چھوٹے سے لاؤنج میں آ گئے۔۔اس نے لاؤنج میں پڑے صوفے پر شاپر کو رکھا۔۔اور پانی لینے کچن میں چلی آئی۔۔۔۔تھوڑی دیر بعد وہ کولڈ ڈرنک اور کچھ کھانے کے لوازمات کے کر حاضر تھی۔۔"ارے بیٹا ان سب کی کیا ضرورت تھی۔۔؟ رحیم بابا نے شرمندہ ہوتے پوچھا۔۔"بابا۔۔! میں گئی تو پانی لینے ہی تھی۔۔لیکن پھر سوچا میرے بابا اتنی دور سے میرے لیے سفر کر کے آئے ہیں۔۔"صرف ان چند سامان کی وجہ سے اور اتنی گرمی میں آئے ہیں۔۔" بھئی ایک بیٹی کا فرض بنتا ہے نہ کہ وہ اپنے بابا کی خدمت کریں۔۔۔"وہ بہت اپنائیت سے بولی تھی۔۔"رحیم بابا کی آنکھوں میں نمی آ گئی تھی۔۔"جن کو وہ چھپا گئے تھے۔۔۔بابا ماما کیسی ہے..؟ مدیحہ آپی کی شادی ہو گئی کیا۔۔۔؟ بابا آ آگئے واپس..؟ اور اور ۔۔۔!!! وہ نظریں جھکا گئی تھی آنکھوں میں آنسوں آ گئے تھے۔۔گلے ایک پھانس سے اٹک گئی تھی۔۔۔اس سے زیادہ اس سے کچھ بھی نہیں بولا جا رہا تھا۔۔۔۔بیٹا سب ٹھیک ہے۔۔۔سلمان صاحب واپس پھر سے لندن چلے گئے۔۔عائشا میم آپکو بہت یاد کرتی ہے۔۔۔مدیحہ بی بی جی کی شادی ہو گئی ہے۔۔۔ابھی پچھلے مہینے ہوئی ہے۔۔بلکہ مدیحہ بی بی جی بلکل بھی تیار نہیں تھی "وہ کہتی پہلے میری بہن جیسی بھابی کو لاؤ پھر میں شادی کرونگی "لیکن شہزین کے گھر والے نہیں مانے تھے۔۔۔اس لیے شادی کی چھوٹی سی تقریب کی گئی تھی۔۔"اور اُنکی رخصت کر دیا۔۔۔رحیم بابا نے مختصر سا بتایا اسکو۔۔۔۔!!! اچھا۔۔وہ بس اتنا ہی بولی۔۔"بابا نے اُسکے چہرے کو دیکھا۔۔اور پھر بولے۔" بیٹیاں" منہال بابو بہت اُداس اُداس رہتے ہیں"نہ کسی سے بات کرتے ہیں" اب انکا حال پہلے سے بھی زیادہ بُرا ہے ۔پہلے وہ اپنا درد" مائشا نے جھٹکے سے اُنکی طرف دیکھا۔۔"کون سا درد...؟ و وہ بیٹا میں بول رہا تھا کہ جب اُن کی شادی آپ سے نہیں ہوئی تھی تب وہ کسی حادثے کے تحت وہ گم ثم سے ہو گئے تھے۔۔"لیکن جب بھی اُنہونے کسی سے بات کرنا نہیں چھوڑا تھا۔۔۔" ہاں خود کو اُنہونے اس وقت مصروف کر لیا تھا۔۔۔لیکن اب "اب تو جیسے وہ مسکرانا سب کے پاس اٹھنا بیٹھنا سب بھول گئے ہے۔۔"وہ بہت کمزور ہو کر رہ گئے ہے۔۔"خود پر دھیان دینا اُنہونے چھوڑ دیا ہے۔۔۔بس اپنے روم تک محدود ہو کر رہ گئے ہے۔۔۔اور اور بیٹا وہ۔۔۔۔۔۔؟ 
********************
میں نے آپکو پہلے ہے آگاہ کیا تھا کہ ابھی مجھے شادی نہیں کرنی"لیکن آپنے نہیں سنا"اب جب شادی ہو گئی ہے تو اور کیا چاہتے ہیں آپ...؟ اس نے غصّے سے سامنے کھڑے شخص سے پوچھا تھا۔۔۔"میں اور کچھ نہیں چاہتا مدیحہ صرف اتنا چاہتا ہوں کہ آپ یہ چھوڑ چڑچڑاپن چھوڑ دیں آپکا یہ رویہ مجھے بہت ہارٹ کرتا ہے وہ نے بے بسی سے اسکو دیکھتے پوچھ رہا تھا۔۔"کیسے آپ ہی بتائے کیسے...؟ میں نے آپ سے صرف یہ کہا تھا کہ آپ شادی تب تک نہ کریں جب تک مائشا کا کچھ پتہ نہ چل جائے۔۔۔"لیکن نہیں آپ دونوں بھائیوں کو شائد ہمیشہ اپنی خوشی ہی نظر آتی ہے۔۔"اور کچھ نہیں...؟ اب آپ مجھ سے توقع کر رہے ہے کہ میں آپ سے اپنا رویہ ٹھیک کر لوں۔۔ آپ چاہتے ہیں کہ میں آپ کی خوشی کے لیے خود کو ٹھیک کر لوں تو مسٹر شاہزین ملک شاہ"میں آپکی خوش فہمی کو دور کر دیتی ہوں کہ میں یہ بلکل نہیں کر سکتی۔۔"ایک بات آپنے نہیں مانی تھی.."اور اب مجھ سے بھی آپ توقع نا ہی کریں تو اچھا ہوگا۔۔۔"وہ غصّے سے چلّائی۔۔۔"آپکے بھائی نے کوئی بھی کشر نہیں چھوڑی میرے بھائی اور بھابی کی زندگیوں میں زہر گھولنے کی..."اس حد تک جا سکتا تھا وہ میں نے کبھی سوچا ہی نہیں تھا۔۔۔" آپکے بھائی نے ایک معصوم کا دل دکھایا تھا.." پھر یہ سزا تو اُسکے لیے بہت کم ہے۔۔۔!! وہ تلخی سے بولتی روم سے باہر نکل گئی تھی۔۔۔۔"پیچھے شہزین بس دروازے کو دیکھتا رہ گیا تھا۔۔۔۔۔۔ کیا کبھی یہ آزمائش ختم ہو سکے گی...؟ کیا کبھی پوری فیملی ایک ساتھ مل پائے گی۔۔۔؟ یہ تو صرف اللہ ہی جانتا تھا۔۔۔۔میں کیا کروں مدیحہ..؟ میں نے یہ شادی اپنی خوشی کے لیے نہیں کی تھی۔۔۔"میں تو صرف یہ چاہتا تھا کہ آپ کبھی خود کو اکیلا محسوس نہ کریں۔۔۔ اور ابھی تو آپ صرف اسکو بھابی کی حد تک جانتی ہے۔۔۔جب آپکی محبّت اس حد تک ہے اگر آپکو یہ پتہ چل گیا کہ مائشا آپکی چھوٹی بہن ہے تو.........؟ اس سے آگے شائد وہ سوچنا نہیں چاہتا تھا۔۔۔۔۔۔کیونکہ اس سے آگے ۔۔۔۔۔اُسکی جان نکل جاتی۔۔۔۔ میں ایسا کبھی نہیں ہونے دونگا مائشا میری بہنوں جیسی ہے۔۔۔۔۔اور آپ میری محبّت۔۔۔دونوں ہی میرے لئے بہت اہم ہے۔۔۔میں آپ سے وعدہ کرتا ہوں کہ آپکی بہن کو میں بہت جلد واپس لاونگا۔انشاءاللہ.....!!!! وہ بھی اپنی سوچو کو جھکتا باہر نکل گیا تھا۔۔۔۔
*********************
وہ نیم اندھیرے کمرے میں لیٹا ایک ٹک چھت کو گھورے جا رہا تھا۔۔"آنکھوں سے اشک ٹوٹ ٹوٹ کر سائڈ سے تکیوں میں جذب ہو رہے تھے۔۔۔اسکو وہ دن نہیں بھولا تھا۔۔"جب اس نے اپنی محبّت کو خود سے جُدا کیا تھا۔۔۔۔اس دن وہ بہت خوش تھا بہت زیادہ۔۔۔لیکن ایسا کیا ہوا تھا جو اسکو اپنی محبّت کو خود سے دور کرنا پڑا تھا۔۔۔۔ وہ پھر سے ماضی کے اس اذیت ناک صفحہ کو پلٹ کر پڑھ رہا تھا۔۔"وہ چاہتا تھا کہ اس اذیت کو وہ ہر دن ہر لمحہ یاد کر کے تڑپے جو درد اس نے اس معصوم کو دیا تھا۔۔"اور وہ معصوم اففف تک نہیں بولی۔۔کیونکہ وہ صبر کرنا جانتی تھی۔۔۔وہ جانتی تھی کہ اللہ کبھی اُسکے ساتھ بُرا ہونے نہیں دے گا۔۔وہ جانتی تھی کہ یہ اُسکی قسمت میں لکھ دیا گیا ہے۔۔لکھ دیا گیا ہے کہ جو اُسکی قسمت میں ہوگا اسکو ضرور سہنا ہوگا۔۔۔۔۔۔۔ اوہ ہ ہ میرے اللّٰہ ...!!! میں میں بہت بُرا ہوں۔۔۔۔میں نے اس پر اعتبار نہیں کیا۔۔"وہ تو بہت پاکیزہ تھی یہ تو میں شروع سے ہی دیکھ رہا تھا۔۔تو پھر کیسے میں اس ذلیل انسان کی باتوں پر یقین کر گیا۔۔۔یہ جانتے ہوئے کہ وہ شخص دھمکی دے کر گیا تھا۔۔۔۔۔۔ وہ اب آٹھ مہینے پہلے ہونے والے حادثے کے صفحہ کو پلٹ کر یاد کر رہا تھا۔۔۔جو کہ ہر روز کرتا تھا۔۔۔آج پھر وہی دوہرا رہا تھا۔۔۔کیونکہ وہ چاہتا تھا ایسا کرنا۔۔۔
********************
آٹھ مہینے پہلے»»»
یہ مشن ہمارے لیے بہت اہم ہے آج ہم سب یہاں اپنی جان کی پرواہ نہیں کرے گے۔۔"کیونکہ آج اللّٰہ نے ہم کو موقع دیا ہے۔۔۔کسی کو نہیں پتہ کون شہادت پا جائے۔۔"اللّٰہ ہم سب کو نصیب کریں آمین۔۔!! سب نے ایک آواز کہا۔۔آج ہم کو zm نام کی جڑ کو سیرے سے ہی اُکھاڑ پھینکنا ہے یہ موقع پھر کبھی نہیں آئے گا ہمارے پاس..."جو کرنا ہے آج کرنا ہے۔۔۔سمجھے...!! اس نے سبھی آفیسرز کی طرف دیکھ کر بلند آواز میں بولا۔۔۔"یس سر...!! اوکے..!!! آج رات تیار رہیے گا۔۔اوکے سر...!! پھر ملتے ہے رات میں انشاءاللہ...! انشاءاللہ"سب نے ایک آواز کہا اور باری باری سب اس لیب نما کمرے سے باہر نکل گئے۔۔۔۔۔
وہ بھی اپنا والٹ موبائل اٹھا کر باہر نکل گیا تھا۔۔۔"
*********************
وہ بہت خاموشی سے ڈرائیو کر رہا تھا۔۔۔"جب اُسکا موبائل وائبریٹ ہوا.."اس نے موبائل کو کانوں سے لگایا۔۔"ہیلو..!اپنے مخصوص انداز میں بولا " میں شاہزیب بات کر رہا ہوں.."دوسری جانب سے بتایا گیا۔"جانتا ہوں.." مجھے تم سے ملنا ہے..." کیوں ؟ پوچھا گیا۔۔۔"کچھ بتانا ہے تمہیں بلکہ دکھانا ہے کچھ..." میرے پاس وقت نہیں ہے"تھوڑا سا وقت چاہیے صرف تمہارا" لیکن میرے پاس تھوڑا بھی نہیں ہے۔۔۔اوکے ایز یو وش..." دوسری جانب سے کال کاٹ دی گئی تھی۔۔منہال نے کئی لمحوں تک موبائل کو دیکھا ۔"پھر کندھے اچکا دیے۔۔۔تھوڑی دیر بعد وہ سلمان ویلہ تھا.."ماما ماما....." وہ آواز دیتا اپنی ماما کے روم میں جا رہا تھا۔۔"جب ایک ملازم نے اسے بتایا کہ اُسکی ماما کسی کی فوتگی پر گئی ہوئی ہے۔۔"وہ اچھا کہتا اپنے روم میں چلا گیا..."جب اس نے روم کا دروازہ کھول کر اپنا قدم رکھا تو خاموشی نے اُسکا استیکبال کیا تھا۔۔۔"اس نے چاروں اطراف میں نظریں دوڑائی لیکن وہاں مائشا نہیں تھی.." اس نے باری باری سب جگہ مائشا کو تلاش کیا لیکن وہاں کوئی بھی نہیں تھا.."وہ اپنا سر پکڑتا یہاں وہاں چکّر کاٹ رہا تھا۔"جب اُسکی نظر ڈراور پر رکھے ایک پیپر پر گئی۔۔"وہ اس پیپر پر لپکا اور اُسکی کھول کر پڑھنا شروع کیا۔۔۔"
جو جو اس پیپر میں لکھا تھا۔۔"وہ اسکو غصّہ دلانے پر مجبور کر گیا تھا..."ایسے کیسے کوئی بھی اُسکی زندگی کو کھلونا سمجھ کر آ جا سکتا تھا۔۔"لیکن اُسکے ساتھ یہ ہو رہا تھا۔۔۔"یا پھر اسکو سوچنے پر مجبور کر رہا تھا...." نہیں ایسا بلکل نہیں ہو سکتا...! وہ اپنی سوچو کو جھٹکتے ہوئے خود سے بولا جیسے خود کو تسلّی دے رہا ہو.." وہ بلکل بھی ایسی نہیں ہے۔۔میری ہے وہ صرف اور صرف میری"منہال سلمان شاہ کی ہے مائشا کمال شاہ۔۔وہ بہت معصوم ہے "وہ کبھی ایسا نہیں کر سکتی کیونکہ وہ بہت پاکیزہ ہے۔۔اُسکے دل سے آواز آئی تھی۔۔" وہ اپنی دل کی آواز کو سن رہا تھا اور اُسکے وجود میں سکون سرایت کر گیا۔۔لیکن یہ سکون کچھ وقفے کا تھا۔۔۔جب اُسکے موبائل کی میسیج رنگ ہوئی۔۔۔اس نے جلدی سے پاکٹ میں سے موبائل نکال کر میسیج اوپن کیا۔۔۔"لیکن یہ کیا تھا۔۔"ان سب کو دیکھ کر اُسکی رگیں خون آلود ہو گئی تھی۔۔۔چہرا غصّے سے سرخ ہو گیا تھا۔۔۔۔جبکہ وہ غصّے کی آخری اسٹیج پر تھا۔۔۔۔نہیں ں ں .........! ایسا کبھی نہیں ہو سکتا۔۔"و وہ کیسے مجھے دھوکہ دے سکتی ہے۔۔۔؟ نہیں دے سکتی۔۔۔میں ایک بار پھر سے عورت ذات سے نہیں ہار سکتا۔۔۔۔و وہ تو محبّت کرتی ہے۔۔" ف پھر ی یہ کیسے غصّے کی وجہ سے اُسکی آواز بھی اُسکا ساتھ دینے سے انکاری تھی۔۔کیا تھا میسیج میں۔۔؟ جو منہال جیسے شخص کا اتنا بُرا حال تھا۔۔۔کیا منہال مائشا کو پھر سے وہی جگہ دے پائے گا..؟ کیا پھر سے وہ اس سے محبّت کر پائے گا۔۔۔۔۔؟ یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا۔۔۔۔۔اس نے غصّے سے پورے روم کو تحس نہس کردیا تھا ہر سامان ہر جگہ ٹوٹا بکھرا پڑا تھا جو کمرا کبھی خوبصورتی کا منہ بولتا ثبوت ہوا کرتا تھا وہی کمرا اب بری طرح پھیلا ہوا تھا۔۔۔۔جب اُسکا غصّہ کم نہیں ہوا تو وہ گھر سے نکلتا چلا گیا۔۔۔۔۔۔۔کوئی نہیں جانتا تھا وہ کب گھر لوٹے گا۔۔۔۔۔۔۔
********************
اس نے رکشہ کو روکا تھا۔۔"اور اس میں بیٹھ کر رکشہ ڈرائیور کو ایڈریس بتا کر باہر کا ناظرہ دیکھ رہی تھی۔۔۔جب اسکو کسی انجان نبر سے کال آئی تھی۔۔"اس نے کال اٹھا لی اور موبائل کو کان سے لگایا تھا۔۔"دوسرے جانب شاہزیب کی آواز کو سن کر وہ بہت حیرت ہوئی تھی۔۔۔" ا آپ پ ..؟ وہ خودکو سنبھالتی بمشکل ہی بولی۔۔۔" جی میں...! وہ کیا ہے نہ آپ کی آواز آپکا دیدار کیے بہت وقت گزر گیا ہے۔۔" تو سوچا چلو آج ایک ملاقات ہو ہی جائے...!! وہ کمینگی سی مسکراہٹ چہرے پر سجھاۓ بولا تھا۔۔۔"ویسے کیسی گزر رہی ہی میریڈ لائف۔۔۔؟ انجوئے کر رہی ہو یا پھر....؟ شٹ اپ۔۔!!! آپ اپنے کام سے کام رکھے..! سمجھے آئندہ مجھے کال کرنے کی کوشش مت کریں گا ورنہ نتیجہ بہت بُرا ہوگا...! وہ اُسکی بے تکی باتوں کو سن کر چلا ہی تو گئی تھی۔۔۔۔" ویسے نہ بتائے مجھے کوئی اتنی ضرورت بھی نہیں ہے پوچھنے کی.." خیر میرے پاس آپکے لیے ایک گفٹ ہے۔" ک کون سا گفٹ...؟ مائشا کو ایک دم گھبراہٹ ہونے لگی۔"جس انداز سے شاہزیب بات کر رہا تھا۔۔"ایسا لگ رہا تھا کہ وہ بہت کچھ بُرا کرنے والا ہے۔۔۔۔" آں ں ہاں۔۔۔۔۔۔! ایسے نہیں بتاؤنگا۔۔۔۔"وہ اصل میں میرے اپنے کچھ رول ہے۔۔۔"اور ان ہی رولز میں سے ایک رولز ہے کہ میں جب کسی کو گفٹ کرتا ہوں تو بدلے میں گفٹ لیتا ہوں۔۔" اور اپنی پسند کا لیتا ہوں۔۔" شاہزیب ملک شاہ..." ایک بات کان کھول کر سن لیں.."بھلے ہی آپ میرے بدقسمتی سے کزن ہے اسکا یہ مطلب نہیں کہ میں آپکی زیادتی سہنے والی ہوں۔۔"میں بھولی نہیں ہوں پچھلا وقت "اور میرا آپ سے کوئی ایسا رشتہ نہیں ہے کہ ہمارے درمیان گفٹ تک کی نوبت آ جائے۔۔"اس لیے آپکو بتا دیتی ہوں یہ گفٹ آپ اپنے پاس رکھے مجھے کوئی ضرورت نہیں ہے۔۔"الحمدللہ اللّٰہ کا دیا میرے پاس سب کچھ ہے۔۔" دو دو محبّت کرنے والی ماں ، اچھا شوہر،اچھی بہنیں ،اچّھے دوست اور مال دولت سب کچھ ہی ہے میرے پاس۔۔"اس لیے آپکے گفٹ کی گنجائش نہیں ہے میرے پاس۔۔" اور ہاں اگر اب کبھی کال کی نہ تو پھر میں بتاونگی کہ میں کون ہوں..؟ کس کی بیٹی ہوں...؟ اور کس کی بیوی ہوں...؟ وہ فون رکھنے والی ہی تھی۔"جب ہنستے ہوئے شاہزیب بولا تھا۔۔۔ ھاھاھاھا۔۔!" ویسے بہت غرور ہے نہ تُجھے منہال کی بیوی ہونے پر "دیکھنا ایک دن وہی تمہاری غرور کو توڑے گا"اور ہاں یہ تم بعد میں طے کرنا کہ تمہیں گفٹ چاہیے بھی کہ نہیں.." ایک بار گفٹ کا نام تو سن لو.."چلو میں ہی بتا دیتا ہوں..."گفٹ ہے تمہاری ماں کی جان..." اگر اپنی ماں کی جان پیاری ہے تو میرے بتائے ایڈریس پر آ جاؤ۔!"تمہارے پاس صرف تیس منٹ کا وقت ہے"تیس منٹ کے بعد اپنی ماں کو تم ہمیشہ کے لئے کھو دوگی۔۔"اور ہاں جب آؤ نہ تو چہرے پر بڑی خوبصورت سے مسکراہٹ سجا کر آنا۔۔۔۔سمجھی...!! " مائشا کے پیروں کے نیچے سے زمین ہی نکل گئی تھی۔۔"سانس لینا بھول گئی تھی۔۔"آنکھیں دُھندلا گئی تھی"ماتھے سے ننھی ننھی پانی کے قطرے بہنے لگے تھے۔"ہاتھ پیر کامپنے لگے تھے۔۔۔"اور ہاں کسی کو اگر بتانے کی کوشش کی نہ تو پھر نتیجے کی زمّےدر تم خود ہوگی ۔۔"وہ کچھ بولتی اس سے پہلے کال کٹ گئی تھی۔۔۔"ایک منٹ بعد ہی اس کو ایڈریس مل گیا تھا۔۔۔۔" وہ اللہ کا نام لے کر شاہزیب کے بتائے ہوئے ایڈریس اور پہنچ گئی۔۔"اسکو اگر فکر تھی تو صرف اپنی ماں کی "وہ کچھ بھی کر سکتی تھی اپنی ماں کے لیے."پھر چاہے اسکو اپنی میں کی جان بچانے کے لئے اپنی جان ہی کیوں نہ دینی پڑ جائے۔۔"اُسکا ذہن مفلوس ہو گیا تھا۔۔۔"اگر ذہن میں کچھ تھا تو صرف اُسکی ماں"وہ رکشے والے کو پیسے دے کر ریسٹورینٹ کے اندر چلی آئی تھی۔۔"جب ایک ویٹر اُسکے پاس ایک کارڈ لے کر آیا" اس نے وہ کارڈ تھام لیا تھا"اور اسکو کھولا۔۔۔جہاں ویلکم لکھا تھا.."اور پھر وہ تھوڑی اور اندر آئی اس بار پھر ایک اور ویٹر اُسکے پاس آیا۔۔" اس نے بھی ایک ییلو رنگ کا کارڈ مائشا کی طرف بڑھایا تھا."اس نے ادھر ادھر نظریں دوڑائی۔۔"جہاں اور اسکو شاہزیب نہیں دکھائی دیا تھا.."اس نے پھر سے کارڈ کھولا تھا"جہاں لکھا تھا" میری جان ہونٹوں پر مسکراہٹ سجھا کر اپنے قدم آگے بڑھانا ورنہ نتیجہ تم خود جانتی ہو..."ایک اور آرڈر کے ساتھ دھمکی موصول ہوئی تھی۔"اس کو نہ چاہتے ہوئے بھی اپنے لبوں پر مسکراہٹ لانا تھا"جو کہ بہت مشکل تھا"لیکن اس نے کیا تھا۔۔۔" وہ زبردستی کی مسکراہٹ سجائے آگے بڑھ رہی تھی" پھر سے ایک ویٹر اُسکے سامنے آ کر کھڑا ہوا تھا.."اور بولا میم آپ میرے پیچھے آئے "وہ بھی گردن کو ہاں میں ہلاکر اس ویٹر کے پیچھے کرتے فیملی کیبن کی طرف بڑھی تھی۔۔" ویٹر اسکو گیٹ پر چھوڑ کر وہاں سے چلا گیا تھا۔۔۔اندر سے سب کلیئر نظر آ رہا تھا جبکہ باہر سے اندر کا کچھ بھی نہیں دکھ رہا تھا۔۔" اس نے کانپتے ہاتھوں سے ہنڈل پکڑ کر دروازے کو اندر کی طرف دھکیلتے ہوئے اندر چلی آئی "سامنے ہی شاہزیب اسکو بیٹھا نظر آیا تھا۔۔"شاہزیب کا چہرا گلاس وال کی طرف تھا جس کی وجہ سے اُسکی بیک ہی نظر آ رہا تھا۔۔دروازے کے کھلنے اور بند ہونے پر شاہزیب کے ہونٹوں پر مسکراہٹ رینگ گئی تھی۔۔"وہ پلٹا تھا"اور پھر اپنی جگہ سے کھڑا ہوتا اس تک آیا.."زھے نصیب بہت خوبصورت ہو گئی ہو..." لگتا ہے منہال کی محبّت کا رنگ ٹوٹ کر بکھرا ہے۔۔" مائشا نے اُسکی فضول کی بقوآس پر اپنے ہاتھوں کو بند کیے تھے۔۔۔"غصّے سے اُسکا چہرا سرخ ہو گیا تھا.."بھنویں تن گئی تھی۔"لکین وہ مجبور تھی وقت اور حالات کے سامنے" ویسے ایسا کیا ہے تم میں جو ہر مرد کو بہت جلدی قائل کر لیتی ہو.."بندہ دور سے دیکھ کر قتل ہو جاتا ہے۔۔"وہ بقواس پر بقوآس کر رہا تھا۔۔"مائشا کو برداشت جواب دے گئی تھی.."انف.....!!!!! تمہیں کیا لگتا ہے۔۔۔؟ تم یہ بیہودہ قسم کی بھونکتے رہو گے اور میں سنتی رہوں گی"میں اتنی دیر سے خاموش کھڑی ہوں اسکا مطلب یہ نہیں کہ تم کتوں کی طرح بھونکتے رہو گے"ارے میں بھی کتنے وفادار جانور سے تمہیں ملا رہی ہوں.."بلکہ اس بیچارے جانور کو بھی مجھ پر غصّہ آ رہا ہوگا کہ میں اهوان کو اس جیسے وفادار سے ملا رہی ہوں"تم واقعی ابلیس سے بھی بدتر ہو."کم از کم اسکو صرف انسان کے آگے جھکنے پر اعتراض تھا"ورنہ اللّٰہ کو تو وہ بھی مانتا ہے.."پر تم تھوں۔۔۔۔" میرے بابا نے کیا کچھ نہیں کیا.." تم پر یقین کر کے تمہیں اپنے بز نس کی ساری ذمے داری سونپی کہ تم بابا کے بھتیجے ہو"لیکن وہ نہیں جانتے تھے"جس کو وہ اپنا بز نس سونپ رہے ہیں"وہیں ایک دن اُنکی بیٹی کے لئے آستین کا سانپ بن کر دسے گا.." وہ بول کر چپ ہوئی تھی" اُسکی بات اور شاہزیب بہت خوفناک ہنسی ہنسا تھا.."کم از کم مائشا کو تو اُسکی ہنسی خوفناک ہی لگی تھی.." ہو گیا...؟ لیکن مجھ پر تمہاری کوئی بھی لیکچر کا اثر نہیں ہوا.."اور ہاں تھوڑا لمٹ میں بولو.."کہیں یہ ان لمٹ تمہیں بھاری نہ پڑ جائے..."اور پھر بولا مسکراہٹ ہونٹوں سے جُدا نہیں ہونی چاہیے ورنہ اپنی ماں کی زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھو گی...."سوویت ہارٹ....!!! وہ اُسکے گالوں کو چھوتا بولا تھا..."اور پھر اُسکا ہاتھ زبردستی اپنی آہنی گرفت میں لیا۔"جس پر مائشا کو جھٹکا لگا تھا.."آں ں ہاں ....!!!! بلکل بھی کوشش مت کرنا ورنہ ۔۔۔!! ایک دم مائشا کی کوشش دم توڑ گئی تھی..."اس نے اپنی آنکھوں میں ابلتے آنسوؤں کو اندر دھکیلا تھا.." اسکو نا چاہتے ہوئے بھی وہ سب کچھ کرنا پڑ رہا تھا۔۔"جو یہ اہوان چاہتا تھا...." وہ اُسکے ساتھ چل کر سامنے پڑے چیئر تک آئی تھی.."یہ ریسٹورینٹ کا فیملی کیبن تھا۔۔۔"بہت بڑی ڈائننگ ٹیبل تھی جبکہ اس ٹیبل کے چاروں اطراف چیئر تھی."جن میں سے ایک پر مائشا تھی "اور جسٹ اُسکے سامنے والی چیئر پر شاہزیب بیٹھا گیا۔۔" تھوڑی دیر بعد ویٹر آیا تھا اُسکے ہاتھ میں کھانے کی کئی طرح کی ڈشیز تھے"ویٹر نے سارا سامان اُنکے سامنے ٹیبل اور سیٹ کیا اور وہاں سے چلا گیا.."دیکھو "وہ کچھ بولتی اس سے پہلے شاہزیب نے اُسکے لبوں پر اپنی انگلی رکھ کر اُسکی آواز کو روکا تھا.." مائشا نے حیرت سے اُسکی انگلی کو دیکھا تھا اور پھر اُسکی طرف وہ اُسکی انگلی کو ہٹانا چاہتی تھی لیکن نہیں کے پائی کیونکہ اُسکے دونوں ہاتھ شاہزیب کے ہاتھ میں تھے ۔۔" اسکو نہ بولنے کہ اشارہ کر کے شاہزیب نے اپنی انگلی ہٹائی تھی.."اور اسکو کھانے کہ اشارہ کیا " مائشا نے صاف انکار کرتے اپنی جگہ سے کھڑی ہو گئی تھی۔۔"اور پھر چلّائی "میں یہاں تمہارے ساتھ ڈیٹ اور نہیں آئی ہوں یا میں تمہاری کوئی محبوبہ نہیں ہوں" جو کام ہے اسکو بولو اور مجھے میری ماں کا پتہ بتاؤ" مدّے پر آؤ مجھے یہاں کیوں بلایا ہے...؟ "وہ اسکو یوں پرسکون بیٹھے دیکھ کر پھر سے پھری ہوئی شیرنی کی طرح دھاڑی تھی۔۔۔"ٹھیک ہے..."شاہزیب نے کچھ پیپر اُسکے سامنے رکھے۔۔۔"جس کو دیکھ کر مائشا کے چہرے پر بیختیا بہت ہی پیاری مسکراہٹ نے احاطہ کیا تھا.."جیسے آج دل سے مسکرائی ہو.." وہ پرسکون ہوتی چیئر پر بیٹھی اور ہنستے ہوئے شاہزیب کی طرف دیکھا.." مجھے معلوم تھا..." ویسے یہ مال دولت میرے نزدیک کچھ نہیں ہے.."سچ بتاؤں تو تم مجھے بہت بڑی پریشانی سے آزاد کر رہے ہو.."تمہیں کیا لگتا ہے میں اس دولت کی وجہ سے تمہارے سامنے گڑگڑا کر کھونگی نہیں شاہزیب ایسا مت کرو۔۔"تو یہ خوش فہمی ہے..."مجھے کبھی مال دولت سے محبّت تھی  نہ ہے اور نہ ہی کبھی ہوگی..."کیونکہ یہ مال دولت اپنوں کو کبھی اپنا ہونے ہی نہیں دیتی۔۔ یگجیمپل تم خود کو ہی لے لو"ویسے ایک اچھا مشورہ دوں اگر لینا چاہو۔۔۔" خیر تم رہنے ہی دو.."کیونکہ یہ مشورے وہاں دیے جاتے ہیں جہاں انسان میں عقل نام کی کوئی شے ہو.."لیکن مجھے تو ایسا لگتا ہے تم میں عقل ہے ضرور لیکن صرف وہ جو تمہیں جہنّم کی راہ تک لے جائے..."خیر ایسی مال دولت میں اپنی ماں اور اپنوں کے لیے سو بار وار دوں.."اس نے اپنے ہند بیگ سے پین نکال کر اُن پیپرز پر سگنچر کرنے شروع کئے تھے۔۔۔" اور پھر کھڑی ہوتی بولی.." جلدی مجھے میری ماں کا پتہ بتاؤ..."کہاں ہے میری ماما...؟ اُسکا چہرا بے تاثر تھا..." کون سی ماں ...؟ ارے ہاں یاد آیا۔۔۔!!" وہ کچھ یاد کرتا بولا ۔۔" میں نے تمہاری کوئی بھی ماں کو کیدنیپ نہیں کیا.."یہ میرا ان پیپرز پر سنگنچر کروانے کا ایک نیا طریقہ تھا.."سوویت ہارٹ...!! وہ مکروہ مسکرہٹ لیے بولا.."مائشا کا چہرا سرخ ہو گیا تھا۔"وہ کچھ بھی بولے وہاں سے نکلتی چلی گئی تھی۔۔"پیچھے شاہزیب بہت خوش تھا۔۔۔"کیونکہ اسکو لگ رہا تھا کہ مائشا کو برباد کرنے کی پہلی سیڑھی وہ پار کر چکا ہے۔۔۔"پھر اس نے کسی کو فون کیا تھا۔۔۔"تھوڑی دیر بعد اُسکے موبائل کی رنگ ہوئی کچھ میسیج کے طور پر فوٹو اسکو موصول ہوئے تھے۔۔۔۔" وہ اپنا کام تو پہلے کر چکا تھا.."بس یہ فوٹو منہال پر سینڈ کرنے باقی رہتے تھے۔۔" جو وہ اب کر چکا تھا۔۔۔۔۔" ھاھاھاھاھاھا.."ابھی کہاں مائشا کمال شاہ ارفّف مسز منہال شاہ میرا بدلہ پورا ہوا ہے۔۔"ابھی تو بہت کچھ کرنا باقی ہے.."وہ دن دور نہیں جب یہ غرور جو تمہیں منہال سلمان شاہ پر ہے بہت جلد کرچی کرچی ہو کر ٹوٹے گا۔۔۔"اور ایسا ٹوٹے گا جس کو اگر تم چاہو گی بھی تو نہیں جوڑ پاؤگی کیونکہ یہ درد تمہیں میں دوں گا۔۔میں ھاھاھاھاھاھا۔۔۔لیکن وہ نہیں جانتا تھا۔۔کہ مائشا کمال شاہ غرور انسانوں پر نہیں کرتی "وہ تو غرور اس پاک ذات پر کرتی ہے جو کبھی اپنے بندے کو کبھی بکھرنے ہی نہیں دیتا.."انسان کے ہاتھ میں ہے ہی کیا....؟ کچھ بھی تو نہیں...! نہ انسان امر ہے"نہ انسان کسی کو سنوار سکتا ہے اور نہیں ہی بگاڑ سکتا ہے ۔۔"انسان تو خود کی قسمت کو نہیں بدل سکتا۔۔بلکہ یہ کہنا بہتر رہے گا کہ انسان اپنی مرضی سے کھڑے ہو کے پانی بھی نہیں لے سکتا"جب تک اس پاک ذات کی مرضی نہ ہو۔" پھر انسان پر کس چیز کا غرور کریں...؟ ہے ہی کیا انسان کے پاس اُسکا خود کا....؟ مجھے یہ بتا دو دنیا میں ہے کوئی چیز انسان کی اپنی خود کی...؟ اگر ہے تو ضرور بتانا..."لیکن جہاں تک میں جانتی ہوں کوئی بھی ایسی چیز نہیں ہے انسان کے پاس خود کے جس پر انسان پر غرور کیا جائے۔۔سانسیں ہے وہ اللہ کی محتاج ہے" مال دولت محبّت دنیا کی ہر چھوٹی سے چھوٹی چیز اور بڑی سے بڑی دنیا کی ہر شے..."یہاں تک کہ جذبات بھی انسان کے خود کے نہیں ہے سب اللّٰہ کی امانت ہے..."جو ایک دن وہ واپس لے لیگا..." پھر غرور اللّٰہ پر کرو نہ کہ انسان پر "لیکن آج کا دور ایسا آ گیا ہے کہ وہ دن دور نہیں جب قیامت آئےگی.."انسان مال دولت کے پیچھے ایک سراب کی طرح بھاگ رہا ہے۔۔۔"کسی بزرگ نہیں صحیح فرمایا ہے۔۔۔"یہ دنیا ایک کُتیاں ہے..؟ اس کے پیچھے جتنا دوڑو گے۔۔"اتنا ہی وہ دور بھاگے گی .."لیکن کبھی پکڑ میں نہیں آئے گی"یہ دنیا دیکھنے میں خوبصورت ضرور ہے۔۔لیکن اس سے کہیں زیادہ جہنّمی بھی ہے۔۔۔۔۔ یہ جب ٹک انسان کو نہیں چھوڑتی تب تک انسان جہنّم کا اندھن نہ بن جائے۔۔۔ لیکن کوئی سمجھنے کی تیار نہیں ہے۔۔۔کیونکہ دنیا کے نشے مال دولت کے نشے میں انسان اتنا اندھا ہو گیا ہے کہ اسکو اپنے خود کے خون کے رستے بھی نظر آ رہے اور دوسرے تو طب نظر آئے گے۔۔۔۔۔یہ ہی حال شاہزیب کا تھا.."شاہزیب ملک شاہ کو اُسکی ماں نے ہمیشہ سے ہی مال دولت لالچ کی پٹی پڑھا رکھی تھی۔۔"تو اسکو کیسے اپنے پرائے نظر آ جاتے۔۔۔۔جو بھی تھا یہ تو وہ پاک ذات ہی جانتا ہے کہ شاہزیب کے ساتھ وہ کیا کرنے والا ہے۔۔
********************
وہ ریسٹورینٹ سے نکل کر حویلی جانے کا ارادہ ترک کرتی پھر سے سلمان ویلہ واپس آ گئی تھی۔۔"وہ جیسے ہی اپنے روم میں آئی تو کمرے کی حالت کو دیکھ کر ایک پل کے لیے ساکت رہ گئی تھی.."اسکو سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ کمرے کی حالت بدتر کیسے ہوئی...؟ اس نے ملازمہ کو آواز دی زینب زینب ۔۔۔۔۔!! " زینب بھاگتی ہوئی روم میں آئی تھی..."جی بی بی۔۔۔۔! منہال گھر آئے تھے کیا...؟ اس نے پوچھا "ہاں بی بی جی جب آپ گھر سے گئی تھی اُسکے ایک گھنٹے بعد ہی منہال صاحب گھر آئے تھے.."ابھی ابھی آدھا گھنٹہ پہلے واپس گئے ہے.."بی بی جی صاحب بہت غصّے میں لگ رہے تھے۔۔"میں نے کبھی اُنکو اتنا غصّے میں نہیں دیکھا تھا..."جتنا آج دیکھا ہے۔۔۔۔۔"زینب نے اسکو بتایا تھا..."ہوں "اچھا تم ایک کام کرو جلدی سے دسٹنگ کا سامان لے کر آؤ دونوں کمرے کی صفائی کرتے ہیں ۔۔"جب تک میں فریش ہو لوں پھر مجھے عصر ادا کرنی ہے.."وہ بول کر چادر ورڈ روب میں رکھتی باتھرُوم میں گھس گئی تھی جبکہ زینب سامان لینے باہر چلی گئی۔۔۔۔۔۔۔۔
*********************
سر zm جو کام آج کرنے والا تھا وہ نہیں کر رہا ہے "مجھے ابھی انفارمیشن ملی ہے.."ایجنٹ1123 نے آکر " ms کو بتایا تھا.." پھر کب کرنے والا ہے۔۔"سر اُسکا ارادہ ہے یہ کام الیکشن کے بعد کرنے کا ہے.."اور ابھی الیکشن میں پندرہ دن باقی ہے۔۔۔۔"ٹھیک ہے جہاں تک ہم نے اتنا ویٹ کیا ہے اور صحیح...!!! ٹھیک ہے لیکن پھر بھی آپ سب چوکنا رہنا کیونکہ وہ کوئی نہ کوئی ایسی غلطی ضرور کرے گا۔۔۔"جو ہمارے لیے بہت فائیدہ کا ثابت ہوگا ۔۔اور سب اللہ پر چھوڑ دو اللّٰہ ہم سب کو اپنے مقصد میں کامیاب کریں آمین...!"ٹھیک ہے اور ہاں ایجنٹ1123 آپ ایجنٹ 1122 سے پوچھے وہ کب تک اپنا کام نبطہ کر آ رہی ہے.."اُن سے بولے جلدی اپنا کام فنش کریں ۔۔ اور وہاں سے نکلے۔۔اوکے سر ایجنٹ 1123 سلیوٹ کرتا وہاں سے نکل گیا تھا"اس نے اپنے سارے ساتھیوں کو فون کر کے بیا دیا تھا کہ جو مشن وہ سب آج کی رات انجام دینے والے تھے اب وہ پندرہ دن بعد دیا جائے گا۔"جب تک ہم کی zm کے خلاف ثبوت بھی مل جائے گے..."وہ سب کو اطلاع دے کر کسی گہری سوچ میں تھا"جب وہ ایک فیصلے پر پہنچا تھا"جو کام اُسنے مشن کے بعد کرنے کہ سوچا تھا وہ آج کی رات اسکو کرنا تھا۔۔۔۔کیا تھا وہ کام یہ تو اب وہی جانتا تھا یا پھر اللہ... خیر جو بھی تھا۔۔۔وہ تو آج کی رات ہونے کے بعد پتہ چلنا تھا"اور رات ہونے میں ابھی ایک گھنٹہ باقی تھا۔۔۔۔۔۔وہ گاڑی کی چابی اٹھاتا ہے مقصد گاڑی کو سڑکوں پر دوڑانے لگا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
**********************


   1
0 Comments